اس بات پر عام اتفاق پایا جاتا ہے کہ ایک باپ اپنی بچیوں کو جو آسائش مہیا کرتا ہے وہ اس کی محبت اور بچیوں کو وقت نہ دئیے جانے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ دن میں چند گھنٹے ایسے ضرور ہوتے ہیں جب بیٹیاں اپنے باپ کی غیرموجودگی کو مس کرتی ہیں
سرفراز خان‘ اسلام آباد
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مائیں بیٹیوں کے مقابلے میں بیٹوں کو زیادہ چاہتی ہیں جبکہ بیٹیاں اپنی ماں کے مقابلے میں باپ کو زیادہ پیار کرتی ہیں تاہم پدرانہ شفقت کے معیار کا تعین کرنا مشکل ہے۔ باپ اپنی بیٹیوں کیلئے ایک تناور درخت کی طرح ہوتا ہے جس کے سائے میں وہ پرورش پاتی ہیں۔ باپ کا حوصلہ افزا ءرویہ بیٹیوں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سماجی اقدار کی پاسداری‘ باہمی اعتماد‘ غیرمشروط اور باپ کی پرخلوص بے لوث محبت ایک بیٹی کو مستقبل میں کامیاب زندگی گزارنے کیلئے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ایک باپ کا اپنی بیٹی کے ساتھ مشفقانہ رویہ اور محبت ایک ایسا بہترین تحفہ ہے جس سے اس کی بچی کی شخصیت میں نہ صرف خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے بلکہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب زندگی بھی بسر کرتی ہے۔
اکثر باپ کا رویہ اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے ساتھ دلی طور پر مشفقانہ ہی رہتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ باپ کو اپنے دل میں بیٹی کی محبت کو جگانا پڑتاہے۔
پیار کا اظہار کون کرے؟: ایک بات جس کا اظہار بیٹیاں نہایت آزادانہ طور پر کرتی ہیں وہ یہ کہ ’’میں چاہتی ہوں کہ میرےوالد مجھےبتائیں کہ وہ مجھے کتنا پیارکرتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے بارے میں ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’بیٹے کے مقابلے میں بیٹی ہوش سنبھالنےسے لے کر اپنے گھر بار کی ہونے تک کے اس پورے درمیانی عرصے میں اپنے والد کی توجہ کی زیادہ طالب ہوتی ہے اور جوں جوں اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے اس کے دل میں باپ کو چاہنے اور ان کی جانب سے چاہےجانےکیلئے اس کی خواہش میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں اپنے والد کے متعلق اپنی اس خواہش کا برملا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں۔‘‘
مطمئن اور آسودہ خاندانوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ باپ جو اپنی بیٹی یا بیٹیوں کے سامنے اپنی محبت کا برملا اظہار کرنے میں دشواری محسوس کرتےہیں وہ اپنی بیٹیوں سے محبت اور ان سے دلی لگاؤ کے اظہار کیلئے مصنوعی اور مادی چیزوں کا سہارا لیتے ہیں مثلاً ان کی زندگی کا کوئی خاص دن یاد رکھنا‘ امتحان میں کامیابی اور مزید کامیابیوں کے حصول کی لگن پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کی خاطر انعامات دینا یا پھر ان کے ہاتھ کے بنے ہوئے کھانوں کی تعریفیں وغیرہ۔۔۔
بعض باپ اپنی بیٹیوں سے اپنی محبت کے اظہار کیلئے ان بچیوں کی ماں یعنی اپنی بیوی سے انسیت کا اظہار کرتے ہیں۔ماہرین نفسیات کہتےہیں کہ ’’ایک شوہر کا اپنی بیوی سے انس اور دلی لگاؤ کے اثرات بڑی حد تک ان کے بچوں‘ خصوصاً لڑکیوں پر پڑتے ہیں۔ ایسے خاندانوں میں جہاں میاں بیوی کے تعلقات ناخوشگوار رہتے ہوں ان کے بچوں میں بعض ایسے مختلف اقسام کے جسمانی عوارض جنم لے لیتے ہیں جو بعد ازاں پوری زندگی ان بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف ان کی شخصیت شکستہ ہوجاتی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی ساری زندگی غیرمستحکم ہی رہتی ہے۔
وقت کی اہمیت: اس بات پر عام اتفاق پایا جاتا ہے کہ ایک باپ اپنی بچیوں کو جو آسائش مہیا کرتا ہے وہ اس کی محبت اور بچیوں کو وقت نہ دئیے جانے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ دن میں چند گھنٹے ایسے ضرور ہوتے ہیں جب بیٹیاں اپنے باپ کی غیرموجودگی کو مس کرتی ہیں۔ ایسے وقت میں لڑکیاں اپنے باپ کو گھر پر دیکھنا چاہتی ہیں کمسن بچے باپ کی جانب سے مہیا کی جانے والی آسائشوں سے زیادہ وہ اپنے باپ کی گھر پر موجودگی کو زیادہ اچھا محسوس کرتے ہیں۔ بچیوں کے نزدیک گھر پر باپ کی عدم موجودگی کیلئے کوئی بھی چیز اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ہے۔ ایک چیز جو بیٹیوں کے ذہن میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ رہ جاتی ہے‘ وہ گھر پر باپ کے ہمراہ گزرا ہوا خوشگوار وقت ہوتا ہے۔ یہ خوشگوار لمحات بعد کے آنے والے وقت میں بھی ان کی زندگی میں رچ بس جاتے ہیں‘ لہٰذا ایک باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات اور کام کاج سے تھوڑا سا وقت نکال کر اسے اپنی بچیوں کودے۔ ان کے ساتھ باتیں کرے‘ بچیوں کے ہمراہ چھوٹے چھوٹے کھیل مثلاً کیرم بورڈ‘ کرکٹ‘ فٹ بال‘ لڈو‘ بیڈمنٹن وغیرہ گھر میں ہی کھیلے جاسکتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً انہیں کہیں باہر کھانا یا آئس کریم وغیرہ کھلانے کیلئے لے جائیں۔ اس طرح کی باتوں سے بچیوں کی خوداعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کے والد بھی ان سے ’’دلی پیار‘‘ کرتے ہیں۔ یوں باپ اور بیٹیوں کے درمیان خوداعتمادی اور محبت کا رشتہ مستحکم ہوتا ہے۔
نظم و ضبط کی پابندی اور باپ کا رویہ: بچے ضدی مزاج کے ہوتےہیں دیکھا گیا ہے کہ اکثر والدین یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے نظم و ضبط کی پابندی کریں اور بغیر کوئی تکلیف اٹھائے اپنے والدین کے تجربات سے سبق حاصل کریں تو عموماً بچے اس طرح کے روئیے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں‘ اس سلسلے میں بعض والدین بچوں پر سختیاں بھی کرتے ہیں‘ ماہرین نفسیات اس سلوک کو غلط بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے ٹیچر کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب سےسخت گیری سے دئیے گئے حکم کو آسانی سے تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ یہاں والدین کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ بچہ خصوصاً لڑکیاں اپنے والدین خصوصاً باپ سے کس قسم کے روئیے کی خواہش رکھتی ہیں۔ بچے اندھیرے کمرے میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تنہا اور خوفزدہ شخص کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر والدین کے روئیے اپنا گہرا نقش چھوڑتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچے یابچوں کو نظم و ضبط کا پابند بنانا چاہتے ہیں اور اس کیلئے سخت گیر رویہ اختیار کرتے ہیں تو پھر ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے روئیے پر غور کریں اور اسے تبدیل کریں۔ اگر آپ انہیں محبت اور نرم روئیے سے نظم وضبط کا پابند بنائیں تویہ سختی کے مقابلے میں زیادہ صحت مندانہ رویہ ہوگا۔
بیٹیاں‘ باپ کواپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں‘ لہٰذا اگر باپ کا رویہ سخت ہو تو اس سے بچیوں کی شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ ماں کے مقابلے میں باپ سے زیادہ سہمی ہوئی رہنے لگتی ہیں۔ ہمارے مشرقی ماحول میں باپ کو گھر کے سربراہ کا رویہ ہی دوستانہ کے بجائے حاکمانہ ہو تو اس سے بچوں‘ خصوصاً بچیوں کی شخصیت پر دباؤ کی سی کیفیت طاری رہتی ہے اور پھر وہ پوری زندگی مرد کو سخت گیر ہی سمجھتی رہتی ہے اور اس طرح آگے چل کر ان کی ازدواجی زندگی بھی متعدد مسائل کا شکار ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچوں خصوصاً لڑکیوں کونظم و ضبط کا پابند بنانے کے سلسلے میں باپ کو مشفقانہ رویہ اپنانا چاہیے۔ اس طرح بچیاں نہ صرف پابندیوں یا نظم وضبط کو خوشدلی سے قبول کرلیتی ہیں بلکہ ان پر دل سے عمل کرتی ہیں اور جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے وہ باپ کے اصول کی تعریف اور ان کے مثبت اثرات کا اعتراف بھی کرتی ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں